یاسر ندیم الواجدی امریکہ کے شہر بالٹی مور کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھانے کا اتفاق ہوا تو نماز کے بعد ایک اعلان نے لوگوں کو متوجہ کیا۔ مسج...
یاسر ندیم الواجدی
امریکہ کے شہر بالٹی مور کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھانے کا اتفاق ہوا تو نماز کے بعد ایک اعلان نے لوگوں کو متوجہ کیا۔ مسجد کے ذمے دار یہ اعلان کررہے تھے کہ "کچھ بچے رمضان کے آغاز سے ہفتے میں ایک بار غریبوں میں فوڈ پیکٹ تقسیم کرتے ہیں، پچھلے ہفتے ڈھائی سو کی تعداد میں تقسیم کیے تھے اور اس بار چار سو کا ارادہ ہے، آپ حضرات ان بچوں کی مالی معاونت کریں"۔ اگلا اعلان یہ تھا کہ "کل ہم نے قریبی چرچ کے افراد اور دیگر غیر مسلم پڑوسیوں کو مسجد میں افطار کی دعوت دی ہے، آپ لوگ بھی اپنے اپنے غیر مسلم دوستوں اور پڑوسیوں کو لے کر آئیں"۔
یہ دونوں ہی اعلان معلن تھے کہ مسجد کا کردار صرف یہ نہیں ہے کہ پانچ وقت کی نماز ہوگئی اور بات ختم، بلکہ اس مسجد کے پلیٹ فارم سے بچوں کو تربیت دی جارہی ہے کہ کار خیر میں بڑھ چڑھ کر کیسے حصہ لینا ہے۔ ان کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اسلام میں غرباء ومساکین کی مدد کا کیا درجہ ہے، ساتھ ہی ان کی یہ بھی تربیت ہورہی ہے کہ وہ کیسے ایک پروجیکٹ بنائیں اور پھر اس پروجیکٹ کی تنفیذ کس طرح کریں۔ دوسرا اعلان گو کہ ہمارے ہندوستانی معاشرے کے لیے غیر مانوس نہیں ہے کیوں کہ دہلی میں خوب افطار پارٹیاں ہوا کرتی تھیں لیکن ان کی نوعیت سیاسی تھی، جب کہ اس مسجد نے اپنے اور اپنے مصلیوں کے عام پڑوسیوں کے لیے افطار کا انتظام کیا تھا۔
ہندوستان میں مساجد کا کردار بہت محدود ہے، بہت سے علاقوں میں تو سالہا سال بھی کوئی بیان یا تقریر نہیں ہوتی، ہمارے شہر دیوبند کی عام مساجد میں جمعہ کا بیان بھی نہیں ہوتا، اسی لیے عوام تقریر یا تفسیر سننے کے عادی ہی نہیں ہیں، دیوبند میں ہونے والے جلسے طلبہ ہی سے کامیاب ہوتے ہیں، اہل شہر کی ایک بڑی تعداد اپنے استغنا سے باہر نہیں نکلتی۔ آج سے تقریبا دس سال قبل ہم نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مساجد میں جمعہ کے بیانات کا سلسلہ شروع بھی کیا تھا، جو چند ماہ جاری رہ کر بند ہوگیا۔
جن علاقوں میں جمعہ کے بیان کا رواج ہے وہاں اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا الا ما شاء اللہ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مساجد سے جڑ نہیں پاتے۔ ہماری صفوں میں اجتماعیت نہ ہونے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے عوام اجتماعی طور پر کام کرنے کے عادی نہیں ہیں، پھر عوام میں سے ہی جو لوگ علما بن جاتے ہیں وہ جب اجتماعی کاموں کی ذمے داری لیتے ہیں تو ان کو بھی انفرادی بنا ڈالتے ہیں۔
عہد نبوی میں مساجد کے کردار پر بہت کچھ مواد موجود ہے، بہت سے مقررین کو آپ نے کہتے سنا ہوگا کہ مسجد نبوی سے تو لشکر بھی تیار کیے جاتے تھے۔ آج مساجد کے ذمے داران کم از کم اتنا ہی کرلیں کہ لوگ تبلیغی جماعت میں جائے بغیر بھی مساجد میں آنے لگیں اور مساجد سے سماجی کاموں کا آغاز ہوجائے، پھر کسی غیر مسلم کو مسجد پر اعتراض نہیں ہوگا۔ امریکی شہر سیاٹل کی جامع مسجد میں ایک سال پہلے آگ لگ گئی تھی، مسجد ابھی زیر تعمیر ہے، گزشتہ ایک سال سے پنج وقتہ نماز برابر کے چرچ میں ادا کی جارہی ہے۔ چرچ نے باقاعدہ نمازیوں کی سہولت کے لیے ایک شخص کو کل وقتی ملازم بھی رکھا ہے۔ اگر وہ مسجد بھی امروہہ کے گاؤں کی سی مسجد ہوتی تو غیر مسلموں کا رویہ کیا ہوتا یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ اگر قوم کا مزاج بدلنا ہے تو پہلے اپنے محلے والوں کا مزاج بدلیں، آگے کا راستہ بہت آسان ہوجائے گا۔