’ خلیج کا تنازع صرف سرحدوں کا نہیں ‘ خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے خلاف پابندیوں اور جارحانہ خارجہ پالیسی صرف بیانات اور سرحدوں ک...
’خلیج کا تنازع صرف سرحدوں کا نہیں‘
خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کے خلاف پابندیوں اور جارحانہ خارجہ پالیسی صرف بیانات اور سرحدوں کی بندش تک محدود نہیں۔
جہاں قطر کی فضائی کمپنی کی پروازوں پر اس کا اثر پڑا ہے وہیں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر ایک علیحدہ محاذ کھلا ہوا ہے۔
17 جون کو قطری چینل الجزیرہ کے عربی چینل کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے خلاف ایک منظم مہم کے تحت کارروائی شروع ہوئی اور پھر چینل کا اکاؤنٹ بند کر دیا گیا۔
بے شک اس پر بات کرنے والے بہت سے لوگ نہیں تھے نہ ہی یہ ہیڈ لائنز میں آیا مگر اس سے ایک چیز واضح ہوئی کہ خیلج میں جاری سرد جنگ میں الیکٹرانک میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔
اور اس جنگ میں آلات میں ہیکنگ سے لے کر سائبر حملے تک شامل ہیں جیسا کہ الجزیرہ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر حملے۔
الجزیرہ کے ایک کروڑ دس لاکھ فالورز ہیں اور اس کے اکاؤنٹ کو بند کیا جانا بہت حیرت کی بات تھی تاہم کچھ دیر میں اکاؤنٹ کو واپس بحال کر دیا گیا۔
دراصل اس اکاؤنٹ کے خلاف ایک منظم مہم شروع کی گئی تھی جس میں اس کے خلاف ’ابیوز‘ یعنی ضوابط کی خلاف ورزی کی درخواستوں کی بھر مار کی گئی تھی۔
اس صورت میں ٹوئٹر کے پاس اس اکاؤنٹ کو بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
یہ ہتھیار سوشل میڈیا کی دنیا میں بہت کارگر ہے جس کے تحت لوگ کسی اکاؤنٹ کے خلاف ’ابیوز‘ کے آپشن کو استعمال کر کے اسے بند کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر اس بارے میں چینی کمپنی علی بابا کے چیئرمین جیک ما کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے جنھوں نے گذشتہ دنوں کہا کہ ’نئی ٹیکنالوجی صرف ملازمتوں کے لیے ہی خطرہ نہیں ہے۔‘
ان کا اشارہ انسان کی جانب سے ٹیکنالوجی پر انحصار بہت زیادہ ہونے کی جانب تھا جس حوالے سے انھوں نے کہا ’ٹیکنالوجی میں پہلے انقلاب کے نتیجے میں پہلی جنگِ عظیم ہوئی، دوسرے انقلاب کے نتیجے میں دوسری جنگِ عظیم اور ان دنوں ہم تیسرے ٹیکنالوجیکل انقلاب سے گزر رہےہیں۔‘
اور پھر انھوں نے کہا کہ ’تیسرا ٹیکنالوجیکل انقلاب تیسری جنگِ عظیم کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ جہاں تجارت ختم ہوتی ہے وہیں جنگ شروع ہوتی ہے۔‘