یاسر ندیم الواجدی خلیج کے حالات پر نظر رکھنے والے واقف ہوں گے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات خت...
یاسر ندیم الواجدی
خلیج کے حالات پر نظر رکھنے والے واقف ہوں گے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیے ہیں۔ یہ ٹرمپ کے حالیہ سعودی عرب دورے کے دوران پڑھائے گئے من جملہ اسباق میں سے ایک سبق ہے اور "پیارے بچوں" کو اسی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ آپ نے ٹرمپ دورے کی ایک تصویر دیکھی ہوگی جس میں سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزيز، مصری صدر سیسی اور ٹرمپ ایک گلوب پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑے ہیں اور تمام مسلم ممالک کے نمائندے ان کے پیچھے دست بستہ وصف بستہ ہیں۔ اس تصویر نے جو پیغام دیا تھا وہ شاید کسی اعلامیے سے بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر کا ایک اہم سنگ میل تھا جس کے اپنے عروج پر پہنچتے ہی دجال کا خروج طے ہے۔
خلیج کے حالات پر نظر رکھنے والے واقف ہوں گے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کردیے ہیں۔ یہ ٹرمپ کے حالیہ سعودی عرب دورے کے دوران پڑھائے گئے من جملہ اسباق میں سے ایک سبق ہے اور "پیارے بچوں" کو اسی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ آپ نے ٹرمپ دورے کی ایک تصویر دیکھی ہوگی جس میں سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزيز، مصری صدر سیسی اور ٹرمپ ایک گلوب پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑے ہیں اور تمام مسلم ممالک کے نمائندے ان کے پیچھے دست بستہ وصف بستہ ہیں۔ اس تصویر نے جو پیغام دیا تھا وہ شاید کسی اعلامیے سے بھی ممکن نہیں تھا۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر کا ایک اہم سنگ میل تھا جس کے اپنے عروج پر پہنچتے ہی دجال کا خروج طے ہے۔
قطر سے امریکہ کو کیا پریشانی لاحق تھی جب کہ قطر بھی امریکہ کا بڑا اتحادی ہے، اس کا بہت بڑا فوجی اڈہ وہاں پر ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ قطر اخوانیوں کا تعاون کرتا ہے جو عدم تشدد کے پرجوش حامی ہیں اور جمہوری انداز میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ اسلام کی بات کرتے ہیں۔ امریکی سینیٹر ٹیڈ کروز ایک بل کا مسودہ لیے بیٹھا ہے جو عن قریب امریکی کانگریس میں پیش ہونے جارہا ہے جس کی رو سے صرف شدت پسند کارروائی میں ملوث افراد ہی دہشت گردی کے دائرے میں نہیں آئیں گے بلکہ سیاسی اسلام کے ہمدرد اور اس موضوع پر لٹریچر پڑھنے والے اور بولنے والے بھی دہشت گرد قرار دیے جائیں گے۔ گویا آزادی اظہار رائے سے اسلام کے حق میں رائے دینے کو مستثنی مان لیا جائے گا، مغرب جو کہ اظہار رائے کی آزادی کا سب سے بڑا دعویدار ہے مسلمانوں کو یہ آزادی نہیں دینا چاہتا ہے لہذا امریکہ اسلامی فکر پر قدغن لگانے کے لیے عرب ممالک کو پہلے آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ آپ بہت جلد دیکھیں گے کہ امریکہ میں اس طرح کا قانون پاس ہوجائے گا اور دلیل یہ دی جائے گی کہ خود مسلم ممالک اس فکر کو دہشت گردی کے زمرے میں رکھتے ہیں۔
یاد رکھیے یہ کوئی مسلکی جنگ نہیں ہے کہ سعودی عرب کے مسلکی حمایتی اس اقدام کو جائز قرار دینے کے لیے دلائل ڈھونڈھنے لگیں بلکہ یہ دجالی نظام کی تیاری ہے اور اس نظام کے عروج پر آنے میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو جلد از جلد دور کیا جارہا ہے۔ آج قطر کا نمبر ہے کل ترکی کا، اگر یہ دونوں ممالک دجالی نظام کا حصہ نہ بنے تو مصر میں جو ہوا وہ یہاں ہونا ہے۔ احادیث فتن پڑھیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت پر اپنے ایمان کو تازہ کیجیے۔